Feeds:
Posts
Comments

Archive for July 21st, 2013

Image

Image

Image

Read Full Post »

Image

نئی دہلی : بھارت نے پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ پر نیا الزام عائد کیا ہے کہ وہ بنگلا دیش اور میانمار کے بارڈر پر منظم کارروائیاں کر رہی ہیں۔

بھارتی اخبار نے خفیہ ایجنسی را اور دوسری ایجنسیوں کے حوالے کہا ہے کہ ایک طرف لشکر طیبہ میانمار اور بنگلا دیش کے سرحدی علاقوں میں مسلمان کو اکٹھے کر کے مبینہ طور پر شر انگیزی کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید احمد پاکستان میں برما کے خلاف مسلمانوں کی نسل کشی کے نام پر متحرک ہیں۔

اخبار کے مطابق برما کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی جا رہی ہے جس کا اغاز 2012ءمیں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس سے کیا گیا جس میں لشکر طیبہ جماعت الدعوہ نے دو افراد ندیم اعوان اور شاہد محمود رحمت اللہ کو بنگلا دیس اور میانمار میں ہم خیال مسلمانوں سے راوبط بڑھنے کی ذمہ داری سونپی۔

علاوہ ازیں جیشِ محمد اور جماعت المجاہدین سمیت دوسری جماعتیں بھی کاروئیوں میں مصروف ہیں۔

Read Full Post »

Image

سحری کے بعد دیکھا کہ ایک ٹی وی چینل سے ملالہ یوسفزئی کی سالگرہ کی خبر نشر کی جارہی تھی۔جس میں بتایا جارہا تھا کہ ملالہ آج سولہ سال کی ہوگئی ہیں۔ دوسرا چینل تبدیل کیا تو وہ بھی یہ نیوز نشر کررہاتھا حتٰی کہ تمام چینل کی زینت یہی خبر بنی ہوئی تھی اور ساتھ ساتھ بتایا جارہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کریں گی۔ میں خود بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں اور دوستوں کے ان سوالات سے پریشان بھی ہوں جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ملالہ کو خود ساختہ ڈرامے کے آغاز سے لیکر اب تک الیکٹرانک میڈیا نے اتنا ہیرو کیوں بنایا ؟

 اگر وہ تعلیم کی اتنی خیر خواہ تھی تو پھر پاکستان چھوڑ کربرطانیہ کیوں گئی جبکہ ملک کے خیر خواہ تو ملک کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر ملک سے بھاگ نہیں سکتے ؟ کیا پاکستان میں تعلیم نہیں ہے؟ پاکستان میں ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر حادثات میں بہت سے والدین کے لخت جگر حصول تعلیم کےلیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر ان کو میڈیا کیوں نہیں ہیرو بناکر پیش کرتا ؟کیا بھٹو، ضیاء اور بے نظیر سے زیادہ ملالہ کو خطرہ ہے؟ کیا یہ لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے؟

بدقسمتی یہ ہے کہ جو اس ملک کی اصل ہیرو ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے میڈیا گھبراتا ہے۔ صرف پرنٹ میڈیا ہے جو کالمسٹ کے کالم کو اپنے اخبارات میں جگہ دے کر اس کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتا ہے ۔ اور اس ہیرو سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے اگر انجان ہے تو ہمارے حکمران اور الیکٹرانک میڈیا والے، پرنٹ اور سوشل میڈیا مسلسل ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی آواز اٹھا رہا ہے۔ شروع شروع میں توچند سماجی و سیاسی تنظیموں اور بہت سی این جی اوز نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدا بلند کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صدا ایسے بیٹھتی گئی جیسے دھول بیٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح یہ کوششیں بھی بیٹھ گئیں۔آج اگر کسی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں تو ان میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (ڈاکٹر عافیہ کی بہن ) مجتبیٰ رفیق (چئیر مین وائس آف یوتھ)اسلم خٹک (جنرل سیکرٹری پی ایم ایل ا ین ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی)اور بہت سے کالمسٹ بھی شامل ہیں۔

 ہر محب وطن پاکستانی کی طرح میں یہاں یہ واضح کردوں کہ ملک میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والے لوگوں کی میں پرزور مذمت کرتا ہوں اور ایسی حرکت کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں جو ناحق لوگوں کا قتل عام کررہےہیں۔مگران لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اسلام کی سر بلندی کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ملالہ اورڈاکٹرعافیہ دونوں پاکستان کی بیٹی ہیں۔دونوں کا مشن بھی ایک ہے۔ ملالہ تعلیم کے حصول کی اگر بات کررہی تھی اس گناہ پر اگر کسی نے اْس پر گولی چلائی تو وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ وہ سزا کا مستحق بھی ہے۔ مگر جب ہم کہتے ہیں کہ ملالہ نے پا کستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ درحقیقت ڈاکٹر عافیہ عالم اسلام اور پاکستان کے سرکا تاج ہے۔

 کیونکہ ڈاکٹر عافیہ نے اپنا آئیڈیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا ہوا ہے جبکہ ملالہ کا آئیڈیل لاکھوں مسلمانوں کا قاتل اوبامہ ہے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ڈاکٹر عافیہ ایک مظلوم اعلٰی تعلیم یافتہ اورمسلمانوں کی ہیروہے جبکہ ملالہ غیرمسلم اور میڈیا کی ہیرو ہے۔ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے 86سال کی سزاغیرمنصفانہ،اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ہاتھوں پائی۔ملالہ نے جہاد کی مخالفت کے نام پردنیامیں نام پایاجبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مسلمان سائنٹسٹ ہونے پردہشتگرد کہلائی۔ملالہ نے مسلمان ہونے کے باوجود حجاب اور داڑھی کی مخالفت کی،ملالہ کوتو برقعہ دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے اوراسی اسلام دشمن نظریات کی بنا پر وہ امن کی فاختہ کہلائی۔

اس وقت دونوں امریکا میں موجود ہیں۔ ایک امریکیوں کی قید میں اور دوسری اقوام متحدہ کے فورم پر۔مغربی دنیا ملالہ کوایک مشن کے طورپر استعمال کررہی ہے کیونکہ وہ اسلامی شعائر کی مخالف ہے۔اگر ملالہ یہویوں اور نصرانیوں کی منظور نظر ہوکر بھی پاکستان کی بیٹی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔مگرڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام کامکمل نمونہ ہوکر پاکستان کی بیٹی کیوں نہیں ہے؟پاکستان کے غیرت مندمسلمان خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کی حقیقی اور عظیم بیٹی کون ڈاکٹر عافیہ یا ملالہ یوسف زئی؟حکومت وقت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کب امریکیوں کی چنگل سے آزاد کراتی ہے؟

ملالہ اگر تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی اتنی خیر خواہ ہوتی تو آج جب اس پوری دنیا کےسامنے بولنے کا موقع ملا تو وہ اس فورم پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے آواز بلند کرتی اور دو ٹوک الفاظ میں کہتی کہ ’’میری بہن ڈاکٹر عافیہ جو اس وقت امریکا کی قید میں ہے اس کو فوراً رہا کیاجائے۔ اس کو کیوں ناحق سزادی جارہی ہے ‘‘ مگر افسوس اس کا مشن یہ نہیں ہے اس کا مشن تو کچھ اور ہے۔ کل کے ایک اخبار میں خبر دیکھی جس میں طالبان نےملالہ کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اپنی تعلیم مکمل حاصل کرے،کیا ملالہ اس دعوت کے لیے تیار ہوگی ؟ ناممکن۔

اس کالم کے ذریعے اپنی اور تمام پاکستانیوں کی آواز میاں نواز شریف تک پہنچاتے ہوئے ان کوا یک بار پھر یاد کراتا چلوں کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ عافیہ کو ضرور رہا کرائیں گے۔ میاں صاحب اس معاملے میں بھی ایٹمی دھماکوں کی طرح بولڈ فیصلہ لیں۔کمیٹیاں بنانے سے کیا فائدہ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ’’کمیٹی بناؤ اور مٹی پاؤ‘‘جس طرح آپ نےایٹمی دھماکے کرکے پاکستانی عوام کو خوش کیا اسی طرح اب فی الفور فیصلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے پاکستان لاؤ جیسے ریمنڈڈیوس کو سابقہ حکومت نے پاکستان سے بھیجاتھا تاکہ پاکستانیوں کا ریمنڈڈیوس والا غم غلط ہو ۔
الیکٹرک میڈیا نے جتنا ملالہ یوسفزئی کو ہیرو بنا کرپیش کیا ہے اس سے زیادہ ہیرو تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی مہم چلانے والا مجتبیٰ رفیق جس نے (ایٹمی دھماکے کے دن کا نام یوم تکبیر تجویزکیاتھا)ہے کیونکہ ملالہ تو اس حادثے کے بعد پاکستان چھوڑ کربرطانیہ شفٹ ہوگئی مگر یہ مجتبٰی رفیق وہ شخص ہے جو انگلینڈمیں اپناسب کچھ چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہواتاکہ اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔مجبتٰی رفیق اس وقت غربت وافلاس کے دن گزاررہا ہے اور ملالہ ڈالروں میں کھیل رہی ہے۔ ہیرووہ ہوتے ہیں جو ملک کے لیے کچھ کریں وہ نہیں جواپنی جان کے ڈر سے ملک سے ہی فرار ہوجائیں۔ عزت و ذلت اور زندگی و موت تو اللہ کے اختیار میں ہے جب موت آنی ہے تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا ۔

 میاں صاحب ان باتوں کو آپ سے زیادہ بہتر کون جانتا اور سمجھتا ہے ۔بس ایک فیصلہ لینے کی دیر ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی مریم نواز جیسی بیٹی کو باعزت پاکستان لا کرامر ہوتے ہیں یا پھر سابق حکومت کی طرح عوامی بددعائیں اپنا مقدر ٹھہراتے ہیں۔

Read Full Post »

Image

پشاور: پشاور کے ايک شہري نے وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے نام فیس بک پر خط لکھ کر200 روپے بطور ہرجانہ طلب کرلیے۔

 وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے دعویدار وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے حیات آباد پشاورمیں واقع ذاتی رہائش گاہ کی حفاظت کے لئے گلی کیا بند کرائی بزرگ شہری پروفیسراقبال تاجک نےوزیراعلی کے نام فیس بک پرچٹھی لکھ ڈالی۔

لکھتے ہیں وزیراعلی صاحب آپ کے گھرکے سامنے سے گزرنے پر پابندی کے باعث مجھے طویل چکر لگانا پڑتا ہے، گاڑی میں اضافی ایندھن ڈالنے سے ان کے ذاتی بجٹ میں 200 روپے ماہانہ کا اضافہ ہوگیا ہے جو ادا کیے جائیں۔

پروفیسراقبال تاجک کہتے ہیں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے، لوگ ان چیزوں سے اب بہت تنگ ہیں لیکن کوئی بول نہیں رہا۔

پروفیسر اقبال تاجک کا کہنا ہے ان کا خط تبدیلی کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ہے انہیں امید ہے کہ ایسےمزید قطرے گریں گے۔

Image

Read Full Post »

Image

واشنگٹن : پاکستان امریکا کو ناپسند کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔یہ دعویٰ پیو ریسرچ سینٹر کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

جمعرات کو شائع ہونے والی تحقیق کے دوران 39 ممالک کے 37 ہزار سے زائد شہریوں سے امریکا کے بارے میں رائے طلب کی گئی جس کے بعد معلوم ہوا کہ امریکا کا عالمی امیج 2003ء میں عراق کے حملے کے بعد سے اب تک کی بدترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں امریکا کے بارے میں منفی تاثر بڑھا ہے اور اس حوالے سے پاکستان، اردن اور مصر سب سے آگے ہیں۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ 39 میں سے 31 ممالک کے نصف سے زائد شہریوں نے امریکی ڈرون حملوں کو نامنظور کیا ہے، اور صرف اسرائیل، کینیا اور امریکا میں اکثریتی افراد نے اس کے استعمال کی حمایت کی۔

تحقیق کے مطابق امریکا کے بارے میں سب سے منفی سوچ یا کم ترین مثبت تاثر رکھنے والے ملک میں پاکستان سرفہرست ہے، جہاں صرف 11 فیصد افراد امریکا کو اچھا سمجھتے ہیں جب کہ باقی اسے برا بھلا کہتے ہی نظر آتے ہیں۔

اردن میں یہ شرح 14، فلسطینی خطے اور مصر میں 16 اور ترکی میں 21 فیصد ہے۔

اسی طرح امریکا کے بارے میں سب سے اچھا سوچنے میں فلپائن نے سب کو مات دے دی ہے اور وہاں کے 85 فیصد افراد کو امریکی سرزمین میں سب اچھا ہی نظر آتا ہے، اسرائیل اور گھانا میں یہ شرح 83، سینیگال میں 81 اور کینیا میں بھی 81 ہی فیصد ہے۔

 

Read Full Post »